سبھی گمراہ نگاہوں کی نگہ کھولنی ہے |
مجھے پیچیدہ مسائل کی گرہ کھولنی ہے |
مرے ویرانے میں کافی نہیں الجھن کے چراغ |
تری منزل کی طرف جانے کی رہ کھولنی ہے |
اس کی آنکھیں جسے عرصے سے چھپاتی آئی |
اب یہی بات تجھے ایک جگہ کھولنی ہے |
بات کرنی ہے مجھے رات کے سناٹے میں |
پھر شبِ تیرہ میں یوں زلفِ سیہ کھولنی ہے |
سب سے پہلے وہ مجھے زیر تو کر کے دکھلائے |
مرے سر سے جسے دستار و کلہ کھولنی ہے |
چاہے اس خم سے ہو دنیا کو پریشانی مگر |
زلفِ پیچاں مجھے بے شک و شبہ کھولنی ہے |
معلومات