ہیں نمودار یہ آثار سبھی آہوں کے |
شب کی تاریکی میں آنکھوں سے بہے اشکوں کے |
وقت سے بڑھ کے نہیں مرہم نہ دیکھا ہو |
"زخم بھرنے لگے ہیں پچھلی ملاقاتوں کے" |
کچھ توقف کے ارادے کی ہوئی حسرت کیوں؟ |
ہیں نشانات جہاں ابھرے تری قدموں کے |
دور اندیشی برتنا ہے ہمیں ہر ساعت |
حیلے غارت گری کو کافی ہیں بس لمحوں کے |
مہرباں ابر یہ ہو جاتے ہیں جم کے ناصؔر |
پھوٹ پڑتے ہیں دہانے تبھی ان جھرنوں کے |
معلومات