کردار کے غازی نہ ہی گفتار کے غازی
ہم لوگ فقط بن گئے اخبار کے غازی
بندوق کے ہیں اور نہ ہی تلوار کے غازی
میلوں کے ہیں ہم اور ہیں تہوار کے غازی
ڈالر کے ہوئے اور کبھی دینار کے غازی
فارغ ہوئے بیٹھے ہیں یہ بے کار کے غازی
اپنے بھی ہیں ناراض، پرائے بھی خفا ہیں
اپنوں کے رہے اور نہ ہی اغیار کے غازی
کرتے جو رئیسؔ اپنے ہی اجداد کی تقلید
ہم لوگ بھی ہوتے بڑے کردار کے غازی

44