بہت مصروف رکھتی ہے
مجھے تنہائیاں میری
یہ تو خلوت میں بھی مجھ کو
کبھی تنہا نہیں کرتی
میں گہری سوچ میں بیٹھوں
تو یہ آکر سناتی ہے
وہ میری الجھنیں ساری
کبھی یہ ساتھ میں اپنے
دکھوں کے سبز جنگل میں
یادوں کے سمندر میں
کبھی ویران صحرا میں
مجھے لے کر یہ جاتی ہے
بہت قصے سناتی ہے
کبھی مجھ کو ہنساتی ہے
کبھی مجھ کو رلاتی ہے
بہت مصروف رکھتی ہے
میری تنہائیاں مجھ کو
کبھی تنہا نہیں کرتی
کبھی تنہا نہیں کرتی

18