غم کی آغوش میں اے جان اتر جاؤں گی |
زخم کھا کھا کے ترے ہجر میں مر جاؤں گی |
تیرا احسان بھلا کر میں کدھر جاؤں گی |
”تیرا احسان بھلاؤں گی تو مر جاؤں گی“ |
تیرا احسان مرے یار نہیں بھولوں گی |
اپنی سب خوشیاں ترے نام پہ کر جاؤں گی |
زخم سہ لوں گی جو بخشے گا زمانہ مجھ کو |
اور دامن ترا خوشیوں سے میں بھر جاؤں گی |
خستہ حالی پہ مری ہو نہ پریشاں ہمدم |
تیری صحبت میں رہوں گی تو نکھر جاؤں گی |
تم ہی مرہم ہو مرے آؤ عیادت کے لیے |
ان طبیبوں سے میں کچھ اور بکھر جاؤں گی |
میری ہر سانس ترے نام لکھی ہے محسن |
تو اگر بچھڑا جو مجھ سے تو بکھر جاؤں گی |
کیا کہوں کیسا فسوں ہے ترے ہاتھوں میں صنم |
مجھ کو بس ہاتھ لگادے تو سنور جاؤں گی |
تو کہیں دور کے دریا کا کنارہ ہو جا |
میں کسی پاس کے صحرا میں بکھر جاؤں گی |
ہاں مرے بخت میں ہیں ماں کی دعائیں پیہم |
میں سمندر میں بھی ڈوبی تو ابھر جاؤں گی |
آ کہ اک بار میں سینے سے لگا لوں تجھ کو |
پھر تری یاد کے صحرا میں بکھر جاؤں گی |
معلومات