دل دیکھتے ہی دیکھتے ویران ہو گیا
ہاں عشق کر کے مجھ کو یہ نقصان ہو گیا
اس کی جفا کے داغ وفاؤں سے دھو دیئے
اپنے کئے پہ پھر وہ پشیمان ہو گیا
اس دورِ موج خیز میں جینا محال ہے
مرنا تو اس جہان میں آسان ہو گیا
آئی خزاں پہن کے جو چہرہ بہار کا
کھلتا ہوا چمن مرا ویران ہو گیا
خوں خوار اس جہان میں ہمدرد ہوگئے
انسان اپنی شکل میں حیوان ہو گیا
چھوٹی نہ جس کے ہاتھ سے یاں پاکدامنی
اے دوستو وہ یوسفِ کنعان ہو گیا
اے بے وفا تجھے تو نوازا جہان نے
میرے سفر کا غیب سے سامان ہو گیا
مفعول فاعلات مفاعیل فارحہؔ
مقطع بھی تیرا بحر کی پہچان ہو گیا

0
18