گر بات کوئی خانہ ء دل میں اتر گئی
غالب گماں ہے، قلزم ہستی نکھر گئی
دلبر کی دید بخت وری کو سنور گئی
"کہتے ہیں جس کو عید بلآخر گزر گئی"
ہم آہنگی فضائے چمن میں بھرے گی رنگ
جلوہ نمائی ہوگی جہاں تک نظر گئی
نغمہ سرائی، رقص کناں چھائے ہر طرف
دوش ہوا جو کوچہ ء جاناں خبر گئی
یزداں پہ اعتماد جتائے جو ناخدا
کشتی بھنور سے اس کی بے خوف و خطر گئی
گلشن کی آن بان ہے کھلتا ہوا گلاب
ٹوٹے جو اس کی پنکھڑی، پھر وہ بکھر گئی
پائی کتاب زیست کے ناصؔر ورق میں تھی
کچھ ایسی داستاں جو اثر دل پہ کر گئی

0
31