اک نقش جو ترا مجھے سونے نہیں دیا
تیرا سِتَم حسیں مجھے ڈرنے نہیں دیا
مر تو گیا ترے میں جہاں کے ہی روبرو
کم بخت عشق نے مجھے مرنے نہیں دیا
اُس کا تصورِ حسیں جونہی کیا میں نے
پھر یادِ بے وفا مجھے چلنے نہیں دیا
تھا حال تو برا مرا لیکن کرم سے ہی
اللّٰہ عظیم نے مجھے گرنے نہیں دیا
زندہ جہان میں رضؔی بے درد لوگوں کے
ظالم سماج نے مجھے جینے نہیں دیا

0
3
23
بہت خوب

0
کمال ہئ

0
کمال ہے

0