پرانی سوچ کو گر تم بدل سکو تو چلو
جدید نسل کے کچھ سنگ مل سکو تو چلو
وجود کامنی، نازک مہین چہرہ ہے
"سفر میں دھوپ تو ہوگی جو چل سکو تو چلو"
ڈگر کٹھن ہے مقابل پڑی ہوئی اپنے
وفا کے کھیل میں دے اپنا دل سکو تو چلو
نہ ڈگمگائے قدم راہِ عشق میں اے صنم
کسوٹی سخت ہُوگی اس میں جل سکو تو چلو
تقاضہ وقت کا ناصؔر یہی ہے سوچئے گا
بے باک بن کے اگر تم نکل سکو تو چلو

0
92