اجڑے وہ آشیاں تک گیا ہوں
بیتی اک داستاں تک گیا ہوں
دل پہ جو رکھ کے پتھر کبھی میں
"پوچھتے ہو کہاں تک گیا ہوں"
شاملِ غم بنوں سوچ کر ہی
چھوڑنے کارواں تک گیا ہوں
پا سکوں منزلِ ہستی اپنی
اُس خطِ کہکشاں تک گیا ہوں
قلبِ مضطر کی لینے دعائیں
نُزہَتِ جاوداں تک گیا ہوں
داد خواہی کی رغبت میں ناصؔر
دربدر ناتواں تک گیا ہوں

55