رہِ طلب میں کبھی وہ مقام آ جائے
اتھاہ گہری لگن اپنی کام آ جائے
مریضِ عشق کو کچھ تو، پیام آ جائے
"خدا کرے کہ تمہارا سلام آ جائے"
فضائیں منچلی، آنکھیں بھی ہوں خمار زدہ
ہوائیں ٹھنڈی چلیں، اور شام آ جائے
نگاہیں خیرہ ہو جائیں، زباں یہ عش بولے
جہاں نما کبھی رِفعت کو بام آ جائے
سکونِ قلب کی چاہت نہ اور خواہش ہے
پہ انتظارِ صنم میں مدام آ جائے
خیالِ یار کو آغوش میں پناہ دئے
عروسِ خواب میں شیریں منام آ جائے
فنِ ادب میں تُو ناصؔر کمال پیدا کر
سُخن وروں میں ترا پھر جو نام آ جائے

0
64