Circle Image

باصر نسیم

@Basirnasim1

سنا جائے اسے ہر دم ہے کتنا دل نشیں لہجہ
گماں کی وادیوں میں بھی سراپا پر یقیں لہجہ
کبھی آواز کی لرزش سے تارے جھلملاتے ہیں
کبھی ماحول میں بھر دے شرارے آتشیں لہجہ
کبھی سوچوں کے دھارے پر ہویدا دوست کی مانند
کبھی حسنِ سماعت کو نکھارے انگ بیں لہجہ

0
6
یہی سوچا ہے اب ہم نے زمانہ ساز ہونا ہے
کسی کا راز رکھنا ہے کسی کا راز ہونا ہے
کسی کا راستہ بن کر دکھانی ہے اسے منزل
کسی کے ساتھ گمراہی میں ہم آواز ہونا ہے
کسی کی خلوتوں میں جلوتوں کے رنگ بھرنے ہیں
کسی کی جلوتوں میں خلوتوں کا ساز ہونا ہے

0
5
سراپا ہجر کے آثار بانٹے
وہ دل کے شہر میں اغیار بانٹے
جلا کر آنکھ کی شمعیں وہ اکثر
نئے موسم نئے تہوار بانٹے
کمی ہوگی نہ اپنی چاہتوں میں
وہ چاہے نفرتیں سوبار بانٹے

0
4
آسمانِ زندگی پر راہبر ٹوٹے ہوئے
راستے ٹوٹے ہوئے پرواز و پر ٹوٹے ہوئے
چلتے چلتے تھک گئے ہیں آگہی کے شہر میں
جیسے مٹی کے ہیولے چاک پر ٹوٹے ہوئے
تیرگی کے کارواں منزل بہ منزل گام زن
روشنی کے ساز و ساماں در بہ در ٹوٹے ہوئے

0
4
حوادث کے بیابانوں میں دوڑے عمریں گزری ہیں
اسے خوابوں کے دروازے پہ چھوڑے عمریں گزری ہیں
مری آنکھوں کے پانی میں نہیں وہ کاٹ پہلے سی
کہ دل میں درد کے لیموں نچوڑے عمریں گزری ہیں
شکستہ آرزو کے در پہ اک مردہ سا دل جیسے
پڑا ہے عشق سے ہر رشتہ توڑے عمریں گزری ہیں

0
10
نہ ہو کے گھر میں بھی ہوتی ہے گھر سونا نہیں پڑتا
اسے محسوس کرنے کے لیے چھونا نہیں پڑتا
وہ میرے دل میں اور میں اسکے دل میں سانس لیتا ہوں
ہمیں غم جھیلنے کا خرچ کچھ دونا نہیں پڑتا

0
5
وسعتِ صحرا میں اجڑے موسموں سے ہوگئے
بولتے دریا بھی گونگے منظروں سے ہوگئے
جن کی پیشانی میں روشن تھیں جہاں کی رفعتیں
میرے گھر کے راستے میں راستوں سے ہوگئے
دشت پہنے پھر رہا تھا شہرکا ہر آدمی
دھوپ کے گنبد میں ہیرے کوئلوں سے ہوگئے

10
سمندر کے تھپیڑوں میں کنارا کیوں نہیں ہوگا
تمھارا گر خدا ہے تو ہمارا کیوں نہیں ہوگا
کوئی بھی آزمائش ہو اکٹھے سرخ رو ہونگے
یہ نیت ہے تو جانِ من گزاراکیوں نہیں ہوگا
محبت کے تقاضوں میں وفا پہلا تقاضا ہے
اگر دریا میسر ہے تو دھارا کیوں نہیں ہوگا

0
17
لُٹے تن بھی نہ ڈھانپے عدلِ حاکم کی رداؤں نے
گھٹن کے کشتگاں کا مرثیہ لکھا ہواؤں نے
مرے صحرا بھی ذر خیزی میں گلشن کی روایت تھے
مجھے بنجر کیا تیری عنایت کی گھٹاؤں نے
کوئی پھل پھول سکتا ہے دُکھی لوگوں کے جنگل میں
مجھے سرسبز رکھا ہے غریبوں کی دعاؤں نے

2
24
جب دل میں درد نہیں ہوتا
چہرہ بھی زرد نہیں ہوتا
تو عزم و عمل کا ابر سہی
صحرابھی گرد نہیں ہوتا
مردانگی جوہرِ دیگر ہے
ہر آدمی مرد نہیں ہوتا

0
23
کوئی میرے ساتھ جائے دور تک اور دیر تک
میری آنکھوں میں سمائے دور تک اور دیر تک
چاند کے تاریک گوشے بھی فروزاں ہوں کبھی
آنکھ یوں بھی دیکھ پائے دور تک اور دیر تک
کرب کے بے رحم بادل کب چھٹیں کس کو خبر
آنکھ صحرا ہو نہ جائے دور تک اور دیر تک

31
کبھی بے باک شاہیں خوں چکیدہ پر سے نکلے گا
جسے مہمل سمجھتا ہے وہ اک دن ڈر سے نکلے گا
کسی دیوار کے تابوت میں خاموشیاں چن کر
مرا قامت مرے اظہار کے پتھر سے نکلے گا
اگر چہ ہر سپاہی دل گرفتہ ہے مگر ہمدم
کوئی قائد کوئی باغی اسی لشکر سے نکلے گا

34
لوگ بھی چپ ہیں مرے دل کی صداؤں کی طرح
کون بولے گا بیاباں کی ہواؤں کی طرح
ذرے ذرے کی رعونت ترے ماحول کی شان
میرا احساس تمدن کسی گاؤں کی طرح
بوئے گل ہوں تو نہ رکھ مجھ سے تعلق کوئی
فصل گل ہوں تو مجھے اوڑھ رداؤں کی طرح

0
28
لبوں کے آشیانے میں
نہ باتوں کا پرندہ ہے
نہ سوچوں کی کہانی میں
کوئی کردار زندہ ہے
یہ آنکھیں ہیں کہ اجڑی آرزو کی زرد سی جھیلیں
کہیں بے رونقی کے بدنما کاجل

0
32
ہر کوئی شادماں ہے خوابوں میں
کیسا اچھا جہاں ہے خوابوں میں
تم بھی بیٹھے ہو میرے پہلو میں
گھر کی صورت مکاں ہے خوابوں میں
تیر اپنے ہدف پہ لگتا ہے
معجزاتی کماں ہے خوابوں میں

0
24
خموشی کے پیمبر بولتے ہیں
مرے ہاتھوں میں پتھر بولتے ہیں
میں دریاؤں سے کیا بولوں کہ باصر
سمندر سے سمندر بولتے ہیں

0
29
یہ مری سوچ سے آگے ہیں مرے ساتھ نہیں
خطرہ پاتے ہی جو بھاگے ہیں مرے ساتھ نہیں
ہم تو جاگے ہیں کہ خطروں سے تھا لڑنا اک دن
بھاگ جن کے نہیں جاگے ہیں مرے ساتھ نہیں
لوگ احساس کی بھٹی میں بھی کندن نہ ہوئے
کیسے الجھے ہوئے دھاگے ہیں مرے ساتھ نہیں

0
23
پرندے کے پروں میں قوتِ پرواز تجھ سے ہے
ممولا ہے کہ راہِ شوق کا شہباز تجھ سے ہے
یہ رتبہ ماں کی ہستی کا کوئی جھٹلا نہیں سکتا
کہ دنیا میں ہراک آغاز کا آغاز تجھ سے ہے
تری سانسوں میں پلتی تھیں مرے ہونے کی آشائیں
مرا رونا مرا ہنسنا مری آواز تجھ سے ہے

2
64
ہوا مسافر مسافروں کی ادا مسافر
زمیں پہ خوشبو فلک پہ اڑتی گھٹا مسافر
گئی رتوں کے حسین تحفے سنبھال رکھنا
کہ جس سے قائم بہار تھی وہ چلا مسافر
سنا ہے سنتا ہے رب دعائیں مسافروں کی
ہمارے حق میں بھی کرتے جانا دعا مسافر

0
30
ہوا مسافر مسافروں کی ادا مسافر
زمیں پہ خوشبو فلک پہ اڑتی گھٹا مسافر
گئی رتوں کے حسین تحفے سنبھال رکھنا
کہ جس سے قائم بہار تھی وہ چلا مسافر

0
25
جب سرِ مقتل کسی خود سر کا سر بکتا نہ تھا
سب کے گھر محفوظ تھے کوئی بھی گھر بکتا نہ تھا
لوگ قائم تھے حوادث میں چٹانوں کی طرح
راستہ بکتا نہ تھا عزمِ سفر بکتا نہ تھا
چاند کے ہالے بھی اپنے ساتھ تھے محوِ سفر
کھوٹ کے بازار میں جب راہ بر بکتا نہ تھا

0
52
نرگسِ شہلا کو بینائی کا دکھ
میری آنکھوں میں ہے تنہائی کا دکھ
چاک دامانی کی رسمیں لد گئیں
اب رفو کر لو شناسائی کا دکھ
ٹُوٹ جانے میں صدا کی زندگی
لوچ کھانے میں جبیں سائی کا دکھ

0
66
ابھی آزما لو..
ہوا تیرے آنگن میں رقصاں رہے گی
چراغوں کے سائے بھی محفوظ ہونگے
کسی پیڑ پر کوئی سرسبز پتّا نہ انگڑائی لےگا نہ جھومے گا جب تک
تری آنکھ اذنِ تحّرک نہ دے گی
اجازت کا اس کو تبرّک نہ دے گی

0
58
پرندے کے پروں میں قوتِ پرواز تجھ سے ہے
ممولا ہے کہ راہِ شوق کا شہباز تجھ سے ہے
یہ رتبہ ماں کی ہستی کا کوئی جھٹلا نہیں سکتا
کہ دنیا میں ہراک آغاز کا آغاز تجھ سے ہے
تری سانسوں میں پلتی تھیں مرے ہونے کی آشائیں
مرا رونا مرا ہنسنا مری آواز تجھ سے ہے

0
86