فراغِ عیش و مسرت کی جستجو رکھ لے
ذرا اداس طبیعت ہے کچھ سبو رکھ لے
ترے خمیر میں گرچہ جہان گردی ہے
ذرا سی صحرا نوردی بھی قیس خُو رکھ لے
عجب نہیں کہ زمانہ اسے غلط رخ دے
مرے رقیب ذرا میری آبرو رکھ لے
ہزاروں کام ہیں دنیا میں کرنے والوں کو
خیالِ حسن و ادا ہی بہانہ جُو رکھ لے
کہاں تصور و تخییل کی ہمیں فرصت
ادا و ناز و نخوت اے ماہ رُو رکھ لے
بہت قریب ہے تجھ پر بھی یہ گھڑی آئے
کرم‌ نواز طبیعت اے تند خُو رکھ لے
مجھے عزیز ہے جان و جگر کی بیتابی
وصال و دید کی راحت اے شاہیؔ ! تُو رکھ لے

1
5
شکریہ بھائی

0