عشوؤں کو چین ہی نہیں آفت کئے بغیر
تم اور مان جاؤ شرارت کئے بغیر
اہلِ نظر کو یار دکھاتا رہِ وفا
اے کاش ذکرِ دوزخ و جنت کئے بغیر
اب دیکھ اُس کا حال کہ آتا نہ تھا قرار
خود تیرے دل کو جس پہ عنایت کئے بغیر
اے ہم نشیں محال ہے ناصح کا ٹالنا
یہ اور یہاں سے جائیں نصیحت کئے بغیر
تم کتنے تُندخُو ہو کہ پہلو سے آج تک
اک بار بھی اُٹھے نہ قیامت کئے بغیر
چلتا نہیں ہے محفلِ حُسنِ جواں میں کام
ہر جنبشِ نظر سے عبارت کئے بغیر
مانا کہ ہر قدم پہ قیامت ہے پھر بھی جوش
بنتا نہیں کسی سے محبت کئے بغیر
بحر
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن

0
311

اشعار کی تقطیع

تقطیع دکھائیں