چاک کی خواہش ، اگر وحشت بہ عریانی کرے
صبح کے مانند ، زخمِ دل گریبانی کرے
جلوے کا تیرے وہ عالم ہے کہ ، گر کیجے خیال
دیدۂ دل کو زیارت گاہِ حیرانی کرے
ہے شکستن سے بھی دل نومید ، یا رب! کب تلک
آب گینہ کوہ پر عرضِ گِراں جانی کرے
مے کدہ گر چشمِ مستِ ناز سے پاوے شکست
مُوئے شیشہ دیدۂ ساغر کی مژگانی کرے
خطِ عارض سے ، لکھا ہے زلف کو الفت نے عہد
یک قلم منظور ہے ، جو کچھ پریشانی کرے
بحر
رمل مثمن محذوف
فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن

0
381

اشعار کی تقطیع

تقطیع دکھائیں