| دل کے چراغ بجھے نہیں، ہوا بدل گئی مگر |
| اک روشنی سی رہ گئی، جو جاں سے جل گئی مگر |
| دنیا نے روک لی نظر، میں نے بھی سر جھکا لیا |
| دل نے کہا کہ چل اُدھر، جہاں وہ چل گئی مگر |
| اشکوں سے میں نے دھو دیا، چہرہ غبارِ غم کا تھا |
| تصویر وہی دل میں ہے، جو رنگ کھل گئی مگر |
| یادوں کا ایک کارواں، ہر شب گزر کے کہہ گیا |
| “وہ شخص خواب میں ملا، حقیقت ڈھل گئی مگر” |
| دل نے کہا کہ پی بھی لے، اشکوں سے اپنی پیاس اب |
| پتھروں پہ برسا ہے یہ، گنگا نکل گئی مگر |
| محفل میں اس کا ذکر تھا، آنکھوں میں اس کی روشنی |
| لب تک وہ بات آ نہ سکی، زبان جل گئی مگر |
| اُس کے فراق کا اثر، لفظوں میں ڈھل گیا ندیم |
| پھولوں پہ نام اُس کا تھا، خوشبو نکل گئی مگر |
معلومات