| کسی نے سمجھا ہمیں مول لے لیں گے، |
| مگر ہم ضمیر کے پکے ہیں، بکتے نہیں۔ |
| جو خواب ہمیں رات نے سونپے خدا کی قسم، |
| وہ دنیا کے سکّوں پہ رکھ کے بکتے نہیں۔ |
| یہ حرفِ صداقت ہے، سودا نہیں کوئی، |
| ہم اپنی انا بیچ کے جھک کے بکتے نہیں۔ |
| جو رستہ ہو حق کا، وہی ہے ہمارا جہاں، |
| ہم طوفاں کے آگے بھی جھک کے بکتے نہیں۔ |
| ہماری نظر میں نہیں لالچ کی کوئی قیمت، |
| ہم دل کے امیر لوگ، سکے بکتے نہیں۔ |
| تمہاری چمک ہم پہ اثر کیوں کرے بھلا، |
| ہم جلتے چراغ ہیں، بجھ کے بکتے نہیں۔ |
| کبھی ہم نے دیکھا نہیں رُتبے کی وہ راہ، |
| جہاں لوگ عزت پہ رک کے بکتے نہیں۔ |
| یہ دل نہ خریدا جا سکا، نہ بکا کبھی، |
| یہ دل تو محبّت کا ہے، سِکّے بکتے نہیں۔ |
| غلامی اگر راس آتی تو ہم مان جاتے، |
| مگر ہم تو سچ بول کے بکتے نہیں۔ |
| یہ سوچ کے آیا زمانہ خریدے ہمیں، |
| ندیمؔ ہنس کے کہا — "ہم بکتے نہیں!" |
معلومات