| خود سے ملنے کا بھی کوئی جواز نہیں ہوتا |
| ہم وہ لوگ ہیں جنہیں اپنے پاس نہیں ہوتا |
| ٭ |
| ہر تعلق میں کوئی دکھ چھپا رہ جاتا ہے |
| دل تو جلتا ہے مگر خاص نہیں ہوتا |
| ٭ |
| میں نے ہر زخم کو ہنس کر گلے سے لگایا |
| یہ میرا فن ہے، یہ احساس نہیں ہوتا |
| ٭ |
| وقت ظالم ہے، مگر میں بھی کچھ کم ظالم ہوں |
| مر کے جینا بھی کوئی آس نہیں ہوتا |
| ٭ |
| لوگ کہتے ہیں محبت سے نجات آسان ہے |
| کاش ہوتا… مگر یہ سانس نہیں ہوتا |
| ٭ |
| جو بھی ملتا ہے وہ لمحوں میں بچھڑ جاتا ہے |
| خواب ہوتا ہے، کوئی ناس نہیں ہوتا |
| ٭ |
| میں نے لفظوں میں چھپایا ہے وہ دکھ جو چیخیں |
| ہاں! مگر شور میں بھی پاس نہیں ہوتا |
| ٭ |
| یہ جو دنیا ہے، یہ اک کھیل، تماشا ہے فقط |
| جیتنے والا بھی خوش خاص نہیں ہوتا |
| ٭ |
| زندگی دیکھ! یہ انعام نہیں، بدلہ ہے |
| اور یہ دکھ صرف میرے پاس نہیں ہوتا |
| ٭ |
| اب "ندیم" اپنی اداسی کا سبب مت پوچھو |
| جونؔ کہتا تھا — کوئی خاص نہیں ہوتا |
معلومات