ذرا بن ٹھن کے جو دلبر بھی آئے
حسیں زہرہ جبیں پیکر بھی آئے
ہوائے دید بن کے منتظر ہیں
"کوئی لمحہ دھنک بن کر بھی آئے"
جگر کو تھام کر بیٹھے ہیں سارے
جری، شعلہ بیاں، لیڈر بھی آئے
تلافی ہو سکے نقصان کی اب
کہ زیرک، زود رس، بہتر بھی آئے
تصور میں کبھی جاناں کے گم ہوں
مہکتے گیسُوئے عنبر بھی آئے
دوا ناصؔر نہ ہو اکسیرِ اعظم
معالج لے کے پھر نشتر بھی آئے

0
57