چلا تھا میں بھی دو قدم صنم کی رہنمائی میں
مگر تھا راستہ کٹھن میں رہ گیا چڑھائی میں
نشیب زندگی میں ہیں ، فراز کا ہے سامنا
ہے آبشار کوہ پر ندی بنی جو کھائی میں
زبان ساتھ دے تو میں کہوں اسے بُرا بھلا
مگر کوئی نہ یہ کہے ہے فرق بھائی بھائی میں
ہے دولتِ جہاں رہی عزیز مجھ کو اب تلک
مگر سکوں مجھے ملا، کسی کی آشنائی میں
ہے گردشِ زمیں تو ایک سمت میں رواں مگر
درونِ ذرّہ گردشیں نہ رہ سکیں جُدائی میں
ہے کس نے حسن میں کشش کو اس طرح سے بھر دیا
کہ عشق مبتلا ہوا جنونِ دلرُبائی میں
اگر ہو معرفت عطا، اثر ہو بات میں ذرا
مجھے بھلا پڑی ہے کیا کسی کی بے وفائی میں
سمجھ سکا نہیں ہے تُو کہ کاروبارِ عشق میں
ہے جیت اس کے نام جو رہا ہے پا رسائی میں
کہوں جو دیر ہو گئی تو میری وہ سنے گا کیا
اسے تو لطف آ رہا ہے میری جگ ہنسائی میں
وہ پاک ذات ہے کرے گا کیسے اس کا سامنا
وضو تو کر گزار وقت قلب کی صفائی میں
مدد خدا کی آگئی تو فتح بھی قریب ہے
اے طارق اب دعا تو کر حضورِ کبریائی میں

0
54