| خوابوں کا جال نہیں بنتا ہوں میں |
| کچھ حقیقت شناس ہو گیا ہوں میں |
| پہلے لہجوں پہ بھروسہ تھا بہت |
| اب تو چہروں سے واقف ہو گیا ہوں میں |
| جو کہا دل نے، زمانے نے نہ مانا کبھی |
| اب زمانے سے خاموش ہو گیا ہوں میں |
| چاند تاروں کی تمنا بھی گئی دل سے |
| اب زمیں پر ہی قائم ہو گیا ہوں میں |
| کبھی ہنستا تھا، مگر اب یہ ہنسی بھی بوجھ ہے |
| جانے کب سے ہی غمگین ہو گیا ہوں میں |
| وقت کے ہاتھوں بہت کچھ کٹ گیا دل سے |
| اب یادیں بھی کمزور ہو گئی ہوں میں |
| کسی کی امید پہ دل نہ لٹایا کبھی |
| اب اپنے آپ کا محافظ ہو گیا ہوں میں |
| اب تو خاموش راہوں میں بھی سنبھل کے چلتا ہوں |
| ہر قدم پر خود سے رابطہ ہو گیا ہوں میں |
| دیکھو، جو درد دل میں چھپا رہا تھا برسوں |
| وہ لفظ بن کے سامنے آ گیا ہوں میں |
| ندیم اب عشق کا سودا نہیں کرتا کوئی |
| زندگی کا حساب ہو گیا ہوں میں |
معلومات