| |
| کہاں گئی وہ جستجو، وہ شوقِ معرفت کہاں؟ |
| خودی کی راہ چھوٹ گئی، یہ بندگی کہاں؟ |
| |
| جو اپنی ذات میں ڈھلے، وہی خدا کے پاس ہے، |
| یہ راز کم سمجھ سکے، وہ عقل کی زباں کہاں؟ |
| |
| زمیں پہ چلنے والے جب نظر سے دیکھتے نہیں، |
| تو آسمان کہتا ہے، یہ آنکھ بے نواں کہاں؟ |
| |
| ہزار سجدے ایک طرف، اگر نہ ہو حضورِ دل، |
| عبادتوں میں لطف کیا، اگر ہو رسمِ جاں کہاں؟ |
| |
| نہ تخت و تاج کی طلب، نہ آرزوئے مال ہے، |
| خودی کی آگ میں جلے تو پھر وہ آسماں کہاں؟ |
| |
| یہ کائنات بولتی ہے، جو دل سے سنتا ہے، |
| جو غافلوں کے ساتھ ہے، وہ نغمہ داں کہاں؟ |
| |
| خدا نے دل دیا تجھے، شعورِ جاں دیا تجھے، |
| مگر تُو خود سے بے خبر، تری ادا کہاں؟ |
| |
| سخن اگر ہو عشق سے، تو بن کے نور اٹھے، |
| اگر ہو خالی لفظ سے، تو پھر بیاں کہاں؟ |
| |
| اٹھا وہی جو جھک گیا، مٹا وہی جو رک گیا، |
| چلے جو عشق میں قدم، وہی ہے کارواں کہاں۔ |
معلومات