تیری صورت سے نہیں ملتی کسی کی صورت،
ہم جہاں میں تیری تصویر لیے پھرتے ہیں۔
چاند تاروں سے بھی روشن ہے تری یادوں کا جمال،
ہم تو شب بھر تری تعبیر لیے پھرتے ہیں۔
دل کی دھڑکن بھی تری آہٹ پہ ٹھہر جاتی ہے،
تیری سانسوں کی وہ تاثیر لیے پھرتے ہیں۔
خواب آنکھوں میں ترے دید کے موسم لاتے ہیں،
ہم تو پلکوں پہ وہ تقدیر لیے پھرتے ہیں۔
تیری باتوں سے مہکتا ہے ابھی تک دل کا شہر،
ہم تو لب پہ تری تحسیر لیے پھرتے ہیں۔
تیرے قدموں کی صدا کانوں میں گونجتی ہے ابھی،
ہم تو دل میں وہی تنویر لیے پھرتے ہیں۔
کوئی پہچانے تو کیسے ہمیں اس دنیا میں،
ہم تو چہروں پہ تری تحریر لیے پھرتے ہیں۔
نہ ملا تو بھی تری یاد سے رشتہ نہ ٹوٹا،
ہم تو جاں بن کے تری تقدیر لیے پھرتے ہیں۔
تیرے وعدوں کا یقیں اب بھی ہمیں ہے، ندیم،
ہم تو دل میں تری تعبیر لیے پھرتے ہیں۔

0
8