چاندنی رات میں تُو یاد بہت آتا ہے
خواب ہر رات مجھے رُلا جاتا ہے
تُو جو بچھڑا تو ہوا بھی نہ لگی مجھ کو
تیرا لہجہ ابھی تک دل سنبھال جاتا ہے
بے سبب آنکھ میں رہتی ہے تری تصویر
جیسے خوابوں میں کوئی راستہ آ جاتا ہے
کاش وہ لمحہ ٹھہر جاتا سرِ رہگزر
جب تُو ہنستے ہوئے پیچھے مُڑ کے دیکھ جاتا ہے
چپ رہیں لوگ تو دل اور بھی گھبرا جائے
یہ سکوت اب تو صداؤں میں بدل جاتا ہے
کبھی سوچوں کہ وہ لوٹ آئے ایک دن
پھر خیال آتا ہے، وہ خواب سا ہو جاتا ہے
ندیم نے لکھی ہے یہ غم کی کتاب
جس کا ہر حرف محبت سُنا جاتا ہے

0
4