| دل نے چاہا کہ تری یاد بھلا دی جائے، |
| پر یہ چاہت بھی تری یاد دلا دی جائے۔ |
| اک نظر تو نے جو ڈالی تھی، اثر ایسا ہوا، |
| ہم نے دنیا کو بھی اک خواب بنا دی جائے۔ |
| حسن تیرا بھی فریبِ نظر کی صورت ہے، |
| دیکھنے والے کو بس آگ لگا دی جائے۔ |
| کیا خبر تھی کہ محبت میں یہ انجام ملے، |
| دل سنبھالیں کہ یہ دنیا ہی گنوا دی جائے۔ |
| آرزو دل کی تھی کچھ اور، ہوا کچھ اور ہی، |
| زندگی یوں تری مرضی سے چلا دی جائے۔ |
| عشق کہتا ہے کہ قربانی ہی اصلِ ایمان، |
| پھر یہ قربان ہر اک پل ادا دی جائے۔ |
| اب یہی سوچ کے خاموش ہے دل کا عالم، |
| کچھ حقیقت، کچھ تمنا چھپا دی جائے۔ |
| آخرِ عمر یہ احساس ہوا ہے "ندیم"، |
| زندگی عشق ہے، ورنہ سزا دی جائے۔ |
معلومات