| دل کو پھر سے کسی وعدے نے بہلایا ہے، |
| ورنہ کب زخمِ محبت نے سنبھلایا ہے۔ |
| چاندنی رات میں تنہا وہ گلی یاد آئی، |
| جہاں آنکھوں نے ترا چہرہ جلایا ہے۔ |
| کس نے پوچھا کبھی، کیسا ہے یہ دل بے کل؟ |
| ہم نے ہر درد کو ہنستے ہوئے پایا ہے۔ |
| جو کبھی ساتھ تھے، اب نام بھی لیتے نہیں، |
| وقت نے کیسے تعلق کو مٹایا ہے۔ |
| اشک بہتے رہے چپ چاپ سرِ بامِ سکوں، |
| ہم نے جلتے ہوئے دل کو بھی چھپایا ہے۔ |
| ایک خوابوں کا نگر تھا، وہ بھی ویران ہوا، |
| ہم نے امید کو خود اپنے سے بھلایا ہے۔ |
| دل کے سناٹے میں اب کون صدا دے ہم کو، |
| ہر صدا کو تو زمانے نے دبایا ہے۔ |
| اب تو خوابوں میں بھی صورت نہیں آتی تیری، |
| کتنی خاموش دعاؤں نے اسے بھلایا ہے۔ |
| یوں لگا وقت نے سب کچھ ہی چھین لیا ہم سے، |
| نام تک دل نے ترا بھولنے پایا ہے۔ |
| یہ جو اشکوں سے تر آنکھ ہے، دیکھو "ندیم"، |
| میرؔ کے رنگ میں ہم نے بھی زمانہ رلایا ہے۔ |
معلومات