جہاں جہاں بھی کوئی کربلا ، الم دے گی
نوید ، صبح کی ، ہر ایسی شامِ غم دے گی
سلگ رہا ہے جو ایمان دل کی گلیوں میں
یقیں ہے گرمئِ الفت ، عمل کو دم دے گی
دھنک جو نکلے کبھی بارشوں کے موسم میں
تو رنگ ، روشنی کیا آسماں سے کم دے گی
صدائے کن فیکوں پھر سنی فلک پر سے
یہ کائنات نئی کہکشاں جنم دے گی
بتوں کی دل میں جگہ ہی نہیں رہی باقی
تو زندگی ہمیں کیا ؟ چاہتِ صنم دے گی
کسی نے سوچا تھا ہو گی یہ میزبان ، زمیں ؟
تمام جگ سے جو آئیں گے ، ہم قدم ، دے گی
جہاں میں پھیلتی جائے گی حق کی جب آواز
تو لمحہ لمحہ خبر ، سب کو دم بدم دے گی
سنبھال پائے گا کیسے کوئی بھلا دل کو
ہوا جو زلف کو لہرا کے پیچ و خم دے گی
جو شش جہت تری تصویر جائے گی طارق
شعور و فہم و فراست کو پھر قلم دے گی

1
74
بہت شکریہ شاہ رئیس صاحب!

0