جہاں جہاں بھی کوئی کربلا ، الم دے گی |
نوید ، صبح کی ، ہر ایسی شامِ غم دے گی |
سلگ رہا ہے جو ایمان دل کی گلیوں میں |
یقیں ہے گرمئِ الفت ، عمل کو دم دے گی |
دھنک جو نکلے کبھی بارشوں کے موسم میں |
تو رنگ ، روشنی کیا آسماں سے کم دے گی |
صدائے کن فیکوں پھر سنی فلک پر سے |
یہ کائنات نئی کہکشاں جنم دے گی |
بتوں کی دل میں جگہ ہی نہیں رہی باقی |
تو زندگی ہمیں کیا ؟ چاہتِ صنم دے گی |
کسی نے سوچا تھا ہو گی یہ میزبان ، زمیں ؟ |
تمام جگ سے جو آئیں گے ، ہم قدم ، دے گی |
جہاں میں پھیلتی جائے گی حق کی جب آواز |
تو لمحہ لمحہ خبر ، سب کو دم بدم دے گی |
سنبھال پائے گا کیسے کوئی بھلا دل کو |
ہوا جو زلف کو لہرا کے پیچ و خم دے گی |
جو شش جہت تری تصویر جائے گی طارق |
شعور و فہم و فراست کو پھر قلم دے گی |
معلومات