ہماری تو یہی خواہش رہی وہ رام ہو جائے |
کہیں پہلے نہ اس سے زندگی کی شام ہو جائے |
چمن والوں نے مل کر خود کو خوشبو سے سنوارا ہے |
مرے محبوب کا شاید وہ رستہ عام ہو جائے |
ہم اب تو رات دن بیٹھے اسی کے در پہ رہتے ہیں |
ہمیں کچھ آسرا ہو گا ہمارا کام ہو جائے |
تمنّائیں ہمیشہ سے مرے دل نے بھی پالی ہیں |
وہ آ اے صبح بیٹھے ساتھ ایسے شام ہو جائے |
کبھی آکر مرے پیچھے وہ چپکے سے مجھے کہہ دے |
میں کب سے سوچتا تھا شب تمہارے نام ہو جائے |
مرا اغیار سے شکوہ بجا ہے بے وفائی کا |
مگر اپنوں سے بھی اب تو گلہ ہر گام ہو جائے |
محبّت نے بُو اے گل کو نکھارا ہے مگر بلبل |
صدا دیتی ہے اب بھی عاشقی ناکام ہو جائے |
یہیں طارق ابھی تک میکدے میں رات ڈھلتی ہے |
اگر بیٹھے رہو کچھ دیر اور اک جام ہو جائے |
معلومات