| یہ دل ابھی سفر میں ہے، ٹھکانا نہیں ملا |
| خودی کو جان لیا، مگر زمانا نہیں ملا |
| نظر میں آگ ہے، مگر بصیرت نہیں جلی |
| کہ نورِ عشق کا وہ بہانہ نہیں ملا |
| جہاں کی رونقوں میں گم رہا میں عمر بھر |
| مگر وہ دردِ دل کا خزانہ نہیں ملا |
| پرندے اُڑ گئے، درخت چپ سے ہو گئے |
| مجھے وہ سایۂ پُر ترانہ نہیں ملا |
| نہ تاج چاہیے، نہ تخت کی طلب مجھے |
| بس ایک سجدہ چاہیئے، جو پرانا نہیں ملا |
| یہ عشق ہے کہ آگ ہے، کہ نور کی لہر ہے |
| کسی نے پوچھا، رازِ فسانہ نہیں ملا |
| میں اپنے آپ میں ڈھلا تو راز کھل گیا |
| کہ مجھ سا دوسرا فرزانہ نہیں ملا |
| سفر تمام ہوا، مگر سکوں نہیں ملا |
| ندیم کو ابھی وہ یقیں والا زمانہ نہیں ملا |
معلومات