اب تو کتنے دن ہوۓ آئی خزاں، گزری بہار
ختم کر دے میرے مولا اب غضب کی رہ گزار
خُود چلا ایسی ہوا اُڑ جائیں بادَل کرب کے
نور کا فیضان نازل کر کہ ٹھنڈی ہو یہ نار
بھیج کچھ ایسی ہمیں اپنے فرشتوں کی مدد
جس کے آنے سے فضا ہو جائے پھر سے سازگار
رحمتِ باری سے پُر امّید کرتے ہیں دُعا
دور کر دے اس خدا کے قہر کو کوئی پکار
ہر طرف اک خوف کی صورت نظر آتی ہے یوں
زلزلے کے آ رہے ہوں جیسے جھٹکے بار بار
کیوں نہیں لوگوں کو اپنی معصیت کی کچھ خبر
گڑ گڑا کر کیوں نہیں لیتے خُدا کو وہ پکار
زندگی بس چل رہی ہے جیسے تیسے جوں کی توں
ہے خدا سے دور رہنا ہی ہوا ان کا شعار
بے یقینی کی فضا چھائی ہوئی ہے ہر طرف
جانے کب یہ ختم ہو جائے گا سارا کاروبار
کیا کسی کو ہوش ہے بھیجا گیا ہے اک نذیر
اس کو خود منوائے گا دے کر نشاں وہ صد ہزار
اس کے بھیدوں کو تو طارق کوئی پا سکتا نہیں
ہے خُدائے ذو العجائب کون اس کا رازدار

0
62