اب تو کتنے دن ہوۓ آئی خزاں، گزری بہار |
ختم کر دے میرے مولا اب غضب کی رہ گزار |
خُود چلا ایسی ہوا اُڑ جائیں بادَل کرب کے |
نور کا فیضان نازل کر کہ ٹھنڈی ہو یہ نار |
بھیج کچھ ایسی ہمیں اپنے فرشتوں کی مدد |
جس کے آنے سے فضا ہو جائے پھر سے سازگار |
رحمتِ باری سے پُر امّید کرتے ہیں دُعا |
دور کر دے اس خدا کے قہر کو کوئی پکار |
ہر طرف اک خوف کی صورت نظر آتی ہے یوں |
زلزلے کے آ رہے ہوں جیسے جھٹکے بار بار |
کیوں نہیں لوگوں کو اپنی معصیت کی کچھ خبر |
گڑ گڑا کر کیوں نہیں لیتے خُدا کو وہ پکار |
زندگی بس چل رہی ہے جیسے تیسے جوں کی توں |
ہے خدا سے دور رہنا ہی ہوا ان کا شعار |
بے یقینی کی فضا چھائی ہوئی ہے ہر طرف |
جانے کب یہ ختم ہو جائے گا سارا کاروبار |
کیا کسی کو ہوش ہے بھیجا گیا ہے اک نذیر |
اس کو خود منوائے گا دے کر نشاں وہ صد ہزار |
اس کے بھیدوں کو تو طارق کوئی پا سکتا نہیں |
ہے خُدائے ذو العجائب کون اس کا رازدار |
معلومات